ایک بزرگ جن کا ایک رسالہ ماہنامہ بنام ’’وارث‘‘ نکلتا تھا‘ یہ حضرت معلم قرآن اور کاتب قرآن اور حافظ قرآن بھی تھے (کیلیانوالے) گاؤں کا نام میں نے تفہیم القرآن‘ میں ان کا نام بحیثیت کاتب پڑھا تھا اب تو کمپیوٹر کا زمانہ آگیا کاتب حضرات تو اب تقریباً ختم ہوچکے ہیں ان کا ماہنامہ مذہبی تھا‘ بڑے بزرگ اور عالم وفاضل ہستی تھے‘ مرحوم گاؤں کے صاحب حیثیت زمیندار تھے مگر انتہائی مہربان اور شفیق تمام طالب علموں کا پوری طرح خیال رکھتے تھے اس گاؤں میں بہت بڑ ی وسیع مسجد تھی جو کہ ان ہی کی زمینوں میں بنی ہوئی تھی۔ تمام طالب علم اسی مسجد میں رہائش پذیر تھے دور دور سے طالب علم علم کی پیاس بجھانے کیلئے آتے تھے اس مسجد کے ہاسٹل سے پیوستہ ایک بہت بڑا ہال بھی تھا اس ہال میں یہ بزرگ بنفس نفیس خود بچوں کو ناظرہ قرآن حفظ کرانے میں مصروف رہتے تھے (ان معروف بزرگ کا نام نامی سید وارث علی شاہ تھا) ان صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ جو بچے ان کے والدین بھائی چچا یا کوئی بھی شخص اس بچے کو لیکر آتا تو محترم بزرگ ا ن سے یہ بچہ اپنے مدرسہ میں داخلہ اس شرط پر لیتے تھے کہ تین دنوں کے بعد آپ تشریف لائیں یا تو اس بچہ کو آپ واپس لے جائیں گے یا مدرسہ میں داخلہ مل جائیگا لیکن واپسی والے بچے کے داخلہ کیلئے آپ اصرار نہیں کریں گے آپ ہمیں مجبور یا سفارش بھی نہیں کرائینگے اب جب تین دنوں کے بعد جب بچے کا سر پرست آتا تو یا تو اسے اداس ہوکر اپنے بچے کو واپس لے جانا پڑتا یا خوشی خوشی شرینی بانٹتا واپس ہوتا اب آپ حیران ہونگے کہ مہتمم مدرسہ کا کیا امتحان ہوتا تھا کہ جس میں بچہ فیل ہوکر واپس گھر لوٹتا اور جن بچوں کو رکھ لیا جاتا تھا تو کیوں؟ اس ہال کمرے میں ایک خاص جگہ تھی جہاں نئے آنے والے بچہ کو بٹھایا جاتا تھا اور اس بچے کوقاعدہ بغدادی دیا جاتا اور الف ب ت ث پڑھا کر بیٹھنے کیلئے اسی مخصوص جگہ پر بٹھایا جاتا اور اسے پوری تفصیل سے بتایا جاتا کہ جب میں آپ کو آپ کا نام لیکر بلاؤں تو آپ نے فوراً بغیر کسی سستی وکاہلی کے فوراً اٹھ کر میرے پاس آنا ہے بیٹھنے سے پہلے اب اس جگہ کو اچھی طرح دیکھ لو۔ ہاں اب جاکر بیٹھ جاؤ اور میں نے جو پڑھایا ہے اسے یاد کرو۔ بچہ جاکر اپنی جگہ بیٹھ جاتا ہے ایک دن دوسرا دن اور تیسرے دن سرپرست نے آنا ہے تیسرے دن اس بچے کی واپسی یا داخلہ پکا ہونے کا دن ہے۔
قارئین! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ استاد محترم کا کیا پیمانہ تھا جس سے بچہ پاس یا فیل ہوجاتا تھا۔ آئیے! آپ کے علم میں وہ پیمانہ لائیں ‘نئی جگہ جب کوئی جاتا ہے تو پوری توجہ سے گردو پیش کا اور اوپر نیچے کامعائنہ کرنا چاہیے جس مخصوص جگہ پر وہ بچہ بیٹھنے کیلئے جاتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے تو اس کے قد سے ایک یا ڈیڑھ فٹ کی اونچائی پر دیوار سے ایک تختہ باہر کو نکلا ہوتا ہے جب اسے آواز آتی ہے تو وہ طالب علم جب اٹھتا ہے تو اس کا سر لامحالہ اس تختے سے ٹکراتا ہے اور ٹکرانا بھی چاہیے اب ان بچوں میں تین قسم کے بچے ہوتے ہیں ایک وہ بچے جب وہ بیٹھنے کیلئے جاتے ہیں تو ایک مخصوص جگہ کے معائنہ کے دوران جب تختہ دیوار دیکھتا ہے تو اس کے حاضر دماغ ہونے کا یہ ثبوت ہے جب اسے پکارا جائے تو اپنے سر کو بچا کر اٹھتا ہے اور جب تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بلایا جائے تو اس بچے کو فرسٹ کلاس سوفیصد نمبر دیکر پہلے ہی بالکل اپنے پاس بٹھالیتا ہے۔ بچے جو ایک دفعہ سر پر تختہ لگنے سے پھر دوبارہ تختے سے بچ کر اٹھتے تھے یا ایک یادو دن بعد ان کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ بے توجہی سے سر پر ضرب لگتی ہے۔ تیسرے نمبر پر وہ بچے جو کہ مسلسل تختہ لگنے کے باوجود بھی نہیں سمجھتے تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ بچے غیرحاضر (دماغی کمزوری) ہیں لہٰذا انہیں داخلہ نہیں ملتا اور دوسرے سال کیلئے انہیں کہا جاتا ہے جو بچے لائق ترین اور حاضر دماغ ہوتے ہیں وہ خود ہی سب کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ اللہ مہربان ہمارے ذہنوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں